عجیب بات ہمارا ہی خوں ہوا پانی
ہمیں نے آگ میں اپنے بدن بھگوئے تھے
غضنفر
بچ کے دنیا سے گھر چلے آئے
گھر سے بچنے مگر کدھر جائیں
غضنفر
دفتر میں ذہن گھر نگہ راستے میں پاؤں
جینے کی کاوشوں میں بدن ہاتھ سے گیا
غضنفر
ہم کہ ساحل کے تصور سے سہم جاتے ہیں
لوگ کس طرح سمندر میں اترتے ہوں گے
غضنفر
ہمارے ہاتھ سے وہ بھی نکل گیا آخر
کہ جس خیال میں ہم مدتوں سے کھوئے تھے
غضنفر
ہر ایک رات کہیں دور بھاگ جاتا ہوں
ہر ایک صبح کوئی مجھ کو کھینچ لاتا ہے
غضنفر
کل تک جو شفاف تھے چہرے آوازوں سے خالی تھے
آڑی ترچھی سرخ لکیریں ان پر بھی اب دیکھو گے
غضنفر
میں ایسا نرم طبیعت کبھی نہ تھا پہلے
ضرور لمس کوئی اس کا چھو گیا مجھ کو
غضنفر
میں اس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھ کے سنتا ہوں
کہ اس کے جھوٹ میں بھی زندگی کی قوت ہے
غضنفر