EN हिंदी
درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے | شیح شیری
dard ki kaun si manzil se guzarte honge

غزل

درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے

غضنفر

;

درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے
خواب کے پاؤں زمینوں پہ اترتے ہوں گے

ہم کہ مربوط ہوئے اور شکستہ ہو کر
ٹوٹ کر کیسے بھلا لوگ بکھرتے ہوں گے

ہم کہ ساحل کے تصور سے سہم جاتے ہیں
لوگ کس طرح سمندر میں اترتے ہوں گے

جانے کیا سوچتی ہوں گی وہ اندھیری راتیں
چاند جب ان کی نگاہوں میں ابھرتے ہوں گے

تم جھلستے ہو چٹانوں پہ مگر جانے دو
کتنے ہی لوگ مکانوں میں سنورتے ہوں گے