درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے
خواب کے پاؤں زمینوں پہ اترتے ہوں گے
ہم کہ مربوط ہوئے اور شکستہ ہو کر
ٹوٹ کر کیسے بھلا لوگ بکھرتے ہوں گے
ہم کہ ساحل کے تصور سے سہم جاتے ہیں
لوگ کس طرح سمندر میں اترتے ہوں گے
جانے کیا سوچتی ہوں گی وہ اندھیری راتیں
چاند جب ان کی نگاہوں میں ابھرتے ہوں گے
تم جھلستے ہو چٹانوں پہ مگر جانے دو
کتنے ہی لوگ مکانوں میں سنورتے ہوں گے

غزل
درد کی کون سی منزل سے گزرتے ہوں گے
غضنفر