کسی کے نرم تخاطب پہ یوں لگا مجھ کو
کہ جیسے سارے مسائل کا حل ملا مجھ کو
کسی مقام پہ وہ بھی بچھڑ گئی مجھ سے
نگاہ شوق جو دیتی تھی حوصلہ مجھ کو
کہ ہم سفر کو سمجھنے لگا خضر اپنا
ضرورتوں نے کچھ ایسا سفر دیا مجھ کو
تمام لوگ ہی دشمن دکھائی دیتے ہیں
کوئی بتائے کہ آخر یہ کیا ہوا مجھ کو
میں تیری کار کا اکھڑا ہوا کوئی پرزہ
سکوں طلب ہے تو میری جگہ پہ لا مجھ کو
مرا وجود بھی ققنس سے کم نہیں ہے میاں
یقیں نہ آئے تو پوری طرح جلا مجھ کو
میں ایسا نرم طبیعت کبھی نہ تھا پہلے
ضرور لمس کوئی اس کا چھو گیا مجھ کو
میں چاہ کر بھی تجھے قتل کر نہ پاؤں گا
یہ کس کا دے دیا تو نے بھی واسطہ مجھ کو

غزل
کسی کے نرم تخاطب پہ یوں لگا مجھ کو
غضنفر