یقین جانیے اس میں کوئی کرامت ہے
جو اس دھوئیں میں مری سانس بھی سلامت ہے
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پاتی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے رہو چپ چاپ
یہی سکون سے جینے کی ایک صورت ہے
میں اس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھ کے سنتا ہوں
کہ اس کے جھوٹ میں بھی زندگی کی قوت ہے
یہ کس کی آنکھ ٹکی ہے اداس منظر پر
یہ کون ہے کہ جسے دیکھنے کی فرصت ہے
کوئی بعید نہیں یہ بھی اشتہار چھپے
ہمارے شہر میں جلاد کی ضرورت ہے
سپر تمام بدن کے حواس ڈال چکے
بس ایک آنکھ ہے جس میں ابھی بغاوت ہے
دل و دماغ میں رشتہ نہیں جہاں کوئی
اک ایسے جسم میں جینا ہماری قسمت ہے
کہیں بھی جائیں سزائیں ہمیں ہی ملنی ہیں
عدالتوں کی ہماری عجیب حکمت ہے
ہمارے بیچ یہ عقدہ نہ کھل سکا اب تک
کسے وصال کسے ہجر کی ضرورت ہے
اسی کو سونپ دیا ہم نے منصفی کی زمام
کہ جس کے خواب میں بھی عکس غاصبیت ہے
غزل
یقین جانیے اس میں کوئی کرامت ہے
غضنفر