سامان عیش سارا ہمیں یوں تو دے گیا
لیکن ہمارے منہ سے زباں کاٹ لے گیا
دفتر میں ذہن گھر نگہ راستے میں پاؤں
جینے کی کاوشوں میں بدن ہاتھ سے گیا
سینے سے آگ آنکھ سے پانی رگوں سے خون
اک شخص ہم سے چھین کے کیا کیا نہ لے گیا
لب پر سکوت دل میں اداسی نظر میں خوف
میرا عروج مجھ کو یہ سوغات دے گیا
خوابوں کا اک طلسم بچا تھا دماغ میں
اب کے برس اسے بھی کوئی توڑ لے گیا
پھنکارتا ہوا مجھے اک اژدہا ملا
جب بھی کسی خزانے کا در کھولنے گیا
غزل
سامان عیش سارا ہمیں یوں تو دے گیا
غضنفر