یہ تمنا نہیں کہ مر جائیں
زندہ رہنے مگر کدھر جائیں
ایسی دہشت کہ اپنے سایوں کو
لوگ دشمن سمجھ کے ڈر جائیں
وہ جو پوچھے تو دل کو ڈھارس ہو
وہ جو دیکھے تو زخم بھر جائیں
بچ کے دنیا سے گھر چلے آئے
گھر سے بچنے مگر کدھر جائیں
اک خواہش ہے جسم سے میرے
جلد سے جلد بال و پر جائیں
اب کے لمبا بہت سفر ان کا
ان پرندوں کے پر کتر جائیں
سوچتے ہی رہیں گے ہم شاید
وہ بلائیں تو ان کے گھر جائیں
غزل
یہ تمنا نہیں کہ مر جائیں
غضنفر