EN हिंदी
غمگین دہلوی شیاری | شیح شیری

غمگین دہلوی شیر

9 شیر

غمگیںؔ جو ایک آن پہ تیرے ادا ہوا
کیا خوش ادا اسے تری اے خوش ادا لگی

غمگین دہلوی




ہاتھ سے میرے وہ پیتا نہیں مدت سے شراب
یارو کیا اپنی خوشی میں نے پلانا چھوڑا

غمگین دہلوی




جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر
رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی




کیا بد نام اک عالم نے غمگیںؔ پاک بازی میں
جو میں تیری طرح سے بد نظر ہوتا تو کیا ہوتا

غمگین دہلوی




کوئی سمجھاؤ انہیں بہر خدا اے مومنو
اس صنم کے عشق میں جو مجھ کو سمجھاتے ہیں لوگ

غمگین دہلوی




میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے

غمگین دہلوی




مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے
نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

غمگین دہلوی




شمع رو عاشق کو اپنے یوں جلانا چاہیئے
کچھ ہنسانا چاہیئے اور کچھ رلانا چاہیئے

غمگین دہلوی




وہ لطف اٹھائے گا سفر کا
آپ اپنے میں جو سفر کرے گا

غمگین دہلوی