شمع رو عاشق کو اپنے یوں جلانا چاہیئے
کچھ ہنسانا چاہیئے اور کچھ رلانا چاہیئے
زندگی کیونکر کٹے بے شغل اس پیری میں آہ
تم کو اب اس نوجواں سے دل لگانا چاہیئے
اس میں سب راز نہاں ہو جائیں گے ہم پر عیاں
پھر اسے اک بار گھر اپنے بلانا چاہیئے
پھر یہ ممکن ہے کہ میرے پاس تو اک دم رہے
کچھ نہ کچھ اے یار بس تجھ کو بہانا چاہیئے
گو بہت ہوشیار عاشق اے پری رو ہیں ترے
لیکن ان میں ایک غمگیںؔ سا دوانہ چاہیئے

غزل
شمع رو عاشق کو اپنے یوں جلانا چاہیئے
غمگین دہلوی