مرا اس کے پس دیوار گھر ہوتا تو کیا ہوتا
قضا سے اے فلک گر اس قدر ہوتا تو کیا ہوتا
جنازہ پر مرے اس شوخ کو لایا ہے تو آخر
اگر اے عشق کچھ تجھ میں اثر ہوتا تو کیا ہوتا
ہوا بے ہوش بالکل آہ اس کی آمد آمد میں
گر آنے سے میں اس کے با خبر ہوتا تو کیا ہوتا
اسی عالم میں ہیں یہ لطف اے دل عشق بازی کے
اگر باغ جناں میں بو البشر ہوتا تو کیا ہوتا
تجلی تو ہوئی موسیٰ کو پر میری طرح واعظ
ہمیشہ جلوہ گر ہر اک شجر ہوتا تو کیا ہوتا
ہنر مندوں کو تیرے ہاتھ سے ہے زندگی مشکل
جو تجھ میں بھی کوئی اے دل ہنر ہوتا تو کیا ہوتا
کیا بد نام اک عالم نے غمگیںؔ پاک بازی میں
جو میں تیری طرح سے بد نظر ہوتا تو کیا ہوتا
غزل
مرا اس کے پس دیوار گھر ہوتا تو کیا ہوتا
غمگین دہلوی