EN हिंदी
نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے | شیح شیری
na puchh hijr mein jo haal ab hamara hai

غزل

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے

غمگین دہلوی

;

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
امید وصل ہی پر ان دنوں گزارا ہے

نہ دیکھوں تجھ کو تو آتا نہیں کچھ آہ نظر
تو میری پتلی کا آنکھوں کی یار تارا ہے

مجھے جو بام پہ شب کو بلائے ہے وہ ماہ
مگر عروج پہ کیا ان دنوں ستارا ہے

یقین جان تو واعظ کہ دین و دنیا میں
بس اس کی صرف مجھے ذات کا سہارا ہے

عجب طرح سے نظر پڑ گیا مرے ہمدم
قیامت آہ وہ مکھڑا بھی پیارا پیارا ہے

مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے
نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

کہا جو میں نے پلاتے ہو بزم میں سب کو
مگر ہمیں ہی نہیں کیا گنہ ہمارا ہے

تو بولے وہ کہ جسے چاہیں ہم پلائیں شراب
خوشی ہماری ترا اس میں کیا اجارا ہے

گیا وہ پردہ نشیں جب سے اپنے گھر غمگیںؔ
تمام خلق سے دل کو مرے کنارا ہے