میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا
پر تصور میں مرے اس نے نہ آنا چھوڑا
اس نے کہنے سے رقیبوں کے مجھے چھوڑ دیا
جس کی الفت میں دلا تو نے زمانا چھوڑا
اٹھ گیا پردۂ ناموس مرے عشق کا آہ
اس نے کھڑکی میں جو چلمن کا لگانا چھوڑا
ہاتھ سے میرے وہ پیتا نہیں مدت سے شراب
یارو کیا اپنی خوشی میں نے پلانا چھوڑا
تیرے غمگیںؔ کو پریشانی ہے اس روز سے یار
تو نے جس روز سے زلفوں کا بنانا چھوڑا
غزل
میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا
غمگین دہلوی