EN हिंदी
میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا | شیح شیری
maine har-chand ki us kuche mein jaana chhoDa

غزل

میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا

غمگین دہلوی

;

میں نے ہر چند کہ اس کوچے میں جانا چھوڑا
پر تصور میں مرے اس نے نہ آنا چھوڑا

اس نے کہنے سے رقیبوں کے مجھے چھوڑ دیا
جس کی الفت میں دلا تو نے زمانا چھوڑا

اٹھ گیا پردۂ ناموس مرے عشق کا آہ
اس نے کھڑکی میں جو چلمن کا لگانا چھوڑا

ہاتھ سے میرے وہ پیتا نہیں مدت سے شراب
یارو کیا اپنی خوشی میں نے پلانا چھوڑا

تیرے غمگیںؔ کو پریشانی ہے اس روز سے یار
تو نے جس روز سے زلفوں کا بنانا چھوڑا