EN हिंदी
مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ | شیح شیری
mujhse aazurda jo us gul-ru ko ab pate hain log

غزل

مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ

غمگین دہلوی

;

مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ
اور ہی رنگت سے کچھ کچھ آ کے فرماتے ہیں لوگ

جب سے جانا بند میرا ہو گیا اے ہمدمو
تب سے ان کے گھر میں ہر ہر طرح کے آتے ہیں لوگ

میرے آہ سرد کی تاثیر اس کے دل میں دیکھ
ہائے کس کس طرح مجھ پر اس کو گرماتے ہیں لوگ

جب وہ گھبراتے تھے مجھ سے تب تھے ان کے گھر کے خوش
اب جو وہ خوش ہیں تو ان کے گھر کے گھبراتے ہیں لوگ

کوئی سمجھاؤ انہیں بہر خدا اے مومنو
اس صنم کے عشق میں جو مجھ کو سمجھاتے ہیں لوگ

روز ہجراں تو دکھایا سو فریبوں سے مجھے
دیکھیے اب اور کیا کیا ہائے دکھلاتے ہیں لوگ

جو لگاتے تھے بجھاتے تھے ہمیشہ ان سے آہ
وہ ہی اب ناچار غمگیںؔ مجھ سے شرماتے ہیں لوگ