آج پھر آئینہ دیکھا ہے کئی سال کے بعد
کہیں اس بار بھی عجلت تو نہیں کی گئی ہے
فیصل عجمی
آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا
فیصل عجمی
اب وہ تتلی ہے نہ وہ عمر تعاقب والی
میں نہ کہتا تھا بہت دور نہ جانا مرے دوست
فیصل عجمی
عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے
محبتوں کو کوئی بد دعا لگی ہوئی ہے
فیصل عجمی
چند خوشیوں کو بہم کرنے میں
آدمی کتنا بکھر جاتا ہے
فیصل عجمی
فیصلؔ مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے
وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا
فیصل عجمی
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے
پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے
فیصل عجمی
جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر
خواب میں نقل مکانی کی طرح ہوتا ہے
فیصل عجمی
کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا
فیصل عجمی