EN हिंदी
اس کو جانے دے اگر جاتا ہے | شیح شیری
usko jaane de agar jata hai

غزل

اس کو جانے دے اگر جاتا ہے

فیصل عجمی

;

اس کو جانے دے اگر جاتا ہے
زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے

پیڑ دیمک کی پذیرائی میں
دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے

ایک لمحے کا سفر ہے دنیا
اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے

چند خوشیوں کو بہم کرنے میں
آدمی کتنا بکھر جاتا ہے