عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے
محبتوں کو کوئی بد دعا لگی ہوئی ہے
پناہ دیتی ہے ہم کو نشے کی بے خبری
ہمارے بیچ خبر کی بلا لگی ہوئی ہے
کمال ہے نظر انداز کرنا دریا کو
اگرچہ پیاس بھی بے انتہا لگی ہوئی ہے
پلک جھپکتے ہی خواہش نے کینوس بدلا
تلاش کرنے میں چہرہ نیا لگی ہوئی ہے
تو آفتاب ہے جنگل کو دھوپ سے بھر دے
تری نظر مرے خیمے پہ کیا لگی ہوئی ہے
علاج کے لیے کس کو بلائیے صاحب
ہمارے ساتھ ہماری انا لگی ہوئی ہے
غزل
عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے
فیصل عجمی