شامیانوں کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے
آج خیرات ہے دعوت تو نہیں کی گئی ہے
دیکھتی ہے ہمیں دنیا اسے روکا جائے
ساتھ رہتے ہیں محبت تو نہیں کی گئی ہے
ہم نے کاسہ ہی بڑھایا ہے دعا دیتے ہوئے
در بہ در جا کے شکایت تو نہیں کی گئی ہے
راستہ ہے اسے ملنے کی جگہ کہتے ہیں
آپ سے ملنے کی زحمت تو نہیں کی گئی ہے
آج پھر آئینہ دیکھا ہے کئی سال کے بعد
کہیں اس بار بھی عجلت تو نہیں کی گئی ہے
پہلی دھڑکن ہی میاں وزن میں تھی شکر کرو
شاعری آج عنایت تو نہیں کی گئی ہے
غزل
شامیانوں کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے
فیصل عجمی