میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا
میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں
پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا
کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا
نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے
مگر وہ میرا نہیں تھا جو نام اس نے لیا
بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی
ہوا چلی تو ہوا سے خرام اس نے لیا
فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے
اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا
غزل
میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
فیصل عجمی