EN हिंदी
میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا | شیح شیری
main zaKHm kha ke gira tha ki tham usne liya

غزل

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

فیصل عجمی

;

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا

میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں
پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا

کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا

نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے
مگر وہ میرا نہیں تھا جو نام اس نے لیا

بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی
ہوا چلی تو ہوا سے خرام اس نے لیا

فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے
اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا