دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں
دتا تریہ کیفی
ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
سچ اگر پوچھو تو سچا آشنا ملتا نہیں
دتا تریہ کیفی
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
دتا تریہ کیفی
عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے
دتا تریہ کیفی
کہنے کو تو کہہ گئے ہو سب کچھ
اب کوئی جواب دے تو کیا ہو
دتا تریہ کیفی
کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
قیامت ہے یہ دل کا آنا نہیں ہے
دتا تریہ کیفی
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے
دتا تریہ کیفی
تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق
کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے
دتا تریہ کیفی
وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے
دتا تریہ کیفی