ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
سچ اگر پوچھو تو سچا آشنا ملتا نہیں
آپ کے جو یار بنتے ہیں وہ ہیں مطلب کے یار
اس زمانے میں محب با صفا ملتا نہیں
سیرتوں میں بھی ہے انسانوں کی باہم اختلاف
ایک سے صورت میں جیسے دوسرا ملتا نہیں
دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں
ہیں پریشاں اور حیراں جائیں تو جائیں کدھر
راہ گم گشتوں کو منزل کا پتا ملتا نہیں
بوالہوس دل کی طرح ہر رنگ ہے صرف شکست
لالہ و گل میں بھی رنگ دیر پا ملتا نہیں
ہے یہاں تو سیر گلزار خیال نوع بہ نوع
ہاں اسیرو ہم کو مضموں کچھ نیا ملتا نہیں
روئیے رونا زمانے کا تو کیفیؔ کس کے پاس
کوئی اس دل کے سوا درد آشنا ملتا نہیں
غزل
ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں
دتا تریہ کیفی