آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر
سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں
بیخود بدایونی
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
بیخود بدایونی
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے
بیخود بدایونی
گردش بخت سے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
مری دل بستگیاں زلف گرہ گیر کے ساتھ
بیخود بدایونی
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
بیخود بدایونی
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
بیخود بدایونی
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرت دل سے کچھ بعید نہیں
بیخود بدایونی
نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت
نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی
بیخود بدایونی
شفا کیا ہو نہیں سکتی ہمیں لیکن نہیں ہوتی
دوا کیا کر نہیں سکتے ہیں ہم لیکن نہیں کرتے
بیخود بدایونی