EN हिंदी
بیخود بدایونی شیاری | شیح شیری

بیخود بدایونی شیر

14 شیر

شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا

بیخود بدایونی




ان کی حسرت بھی نہیں میں بھی نہیں دل بھی نہیں
اب تو بیخودؔ ہے یہ عالم مری تنہائی کا

بیخود بدایونی




واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے
میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا

بیخود بدایونی




وہ جو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں
یہ جو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے

بیخود بدایونی




وہ ان کا وصل میں یہ کہہ کے مسکرا دینا
طلوع صبح سے پہلے ہمیں جگا دینا

بیخود بدایونی