کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
ہزار شکر وہ عاشق تو جانتے ہیں مجھے
جو کہتے ہیں کہ ترا دل کہیں ضرور آیا
جو با حواس تھا دیکھا اسی نے جلوۂ یار
جسے سرور نہ آیا اسے سرور آیا
خدا وہ دن بھی دکھائے کہ میں کہوں بیخودؔ
جناب داغؔ سے ملنے میں رام پور آیا
غزل
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
بیخود بدایونی