اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے
اک روشنئ صبح تھی وہ بھی اداس ہے
عزیز تمنائی
اے موج خوش خرام ذرا تیز تیز چل
بنتی ہے سطح آب کنارہ کبھی کبھی
عزیز تمنائی
باقی ابھی قفس میں ہے اہل قفس کی یاد
بکھرے پڑے ہیں بال کہیں اور پر کہیں
عزیز تمنائی
دہر میں اک ترے سوا کیا ہے
تو نہیں ہے تو پھر بھلا کیا ہے
عزیز تمنائی
ایک سناٹا تھا آواز نہ تھی اور نہ جواب
دل میں اتنے تھے سوالات کہ ہم سو نہ سکے
عزیز تمنائی
ہم نے جو تمنائیؔ بیابان طلب میں
اک عمر گزاری ہے تو دو چار برس اور
عزیز تمنائی
ہمیں نے زیست کے ہر روپ کو سنوارا ہے
لٹا کے روشنئ طبع جلوہ گاہوں میں
عزیز تمنائی
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
عزیز تمنائی
جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے
ہم جہاں گشت ہیں اٹھے ہیں کمر باندھے ہوئے
عزیز تمنائی