خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی
خاموشیوں نے ہم کو پکارا کبھی کبھی
لے دے کے ایک سایۂ دیوار آرزو
دیتا ہے رہروؤں کو سہارا کبھی کبھی
کس درجہ دل فریب ہیں جھونکے امید کے
یہ زندگی ہوئی ہے گوارا کبھی کبھی
سونپا ہے ہم نے جس کو ہر اک لمحۂ حیات
اے کاش ہو سکے وہ ہمارا کبھی کبھی
اے موج خوش خرام ذرا تیز تیز چل
بنتی ہے سطح آب کنارہ کبھی کبھی
دست تہی بڑھائیے کس اشتیاق سے
ٹوٹا ہے شاخ شب سے جو تارا کبھی کبھی
حد نظر کے پار تمنائیؔ کون ہے
محسوس ہو رہا ہے اشارا کبھی کبھی
غزل
خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی
عزیز تمنائی