بڑھنے دے ابھی کش مکش تار نفس اور
اے گوش بر آواز ذرا دیر ترس اور
ہم مائل پرواز رہے جتنی لگن سے
اٹھتی ہی گئی اتنی ہی دیوار قفس اور
یہ آتش شوق اور یہ دو چار پھواریں
اے ابر سیہ مست ذرا کھل کے برس اور
اک قافلۂ زیست بچھڑ جائے تو کیا غم
آتی ہے بہت دور سے آواز جرس اور
فردا میں بہاروں کے نشاں ڈھونڈنے والو
کیا ہوگا زمانے کا چلن اب کے برس اور
ہم نے جو تمنائیؔ بیابان طلب میں
اک عمر گزاری ہے تو دو چار برس اور
غزل
بڑھنے دے ابھی کش مکش تار نفس اور
عزیز تمنائی