دہر میں اک ترے سوا کیا ہے
تو نہیں ہے تو پھر بھلا کیا ہے
صلۂ ذوق مے کشی معلوم
ظرف کیا شے ہے حوصلہ کیا ہے
حاشیے اپنے متن ہے ان کا
محتسب پھر سزا جزا کیا ہے
پوچھتا ہوں ہر ایک سائے سے
چاندنی کا اتا پتا کیا ہے
ان کو ہے دعویٰ مسیحائی
جو نہیں جانتے شفا کیا ہے
کس لئے گردش مدام میں ہیں
آسمانوں کو یہ ہوا کیا ہے
لے اڑے گی بلند پروازی
دوستو سایۂ ہما کیا ہے
اتنی افراط ایسی محرومی
دینے والے معاملہ کیا ہے
سیل شام و سحر میں بہتے ہیں
کیا خبر زیست کیا قضا کیا ہے
ہم ہی چپ ہو گئے تمنائیؔ
دے رہا ہے کوئی صدا کیا ہے
غزل
دہر میں اک ترے سوا کیا ہے
عزیز تمنائی