اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے
اک روشنئ صبح تھی وہ بھی اداس ہے
اک ایک کرکے فاش ہوئے جا رہے ہیں راز
شاید یہ کائنات قرین قیاس ہے
سمجھا گئی یہ تلخئ پیہم فراق کی
اک مژدۂ وصال میں کتنی مٹھاس ہے
ہر چیز آ رہی ہے نظر اپنے روپ میں
اترا ہوا فریب نظر کا لباس ہے
اک گردش دوام میں روز ازل سے ہے
وہ چشم با خبر کہ جو مردم شناس ہے
فطرت کہاں تھی اپنی تمنائیؔ شبنمی
لیکن کسی کی شعلہ نگاہی کا پاس ہے

غزل
اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے
عزیز تمنائی