دل میں وہ درد اٹھا رات کہ ہم سو نہ سکے
ایسے بکھرے تھے خیالات کہ ہم سو نہ سکے
تھپکیاں دیتے رہے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
اس قدر جل اٹھے جذبات کہ ہم سو نہ سکے
آنکھیں تکتی رہیں تکتی رہیں اور تھک بھی گئیں
ہائے رے پاس روایات کہ ہم سو نہ سکے
یہ بھی سچ ہے کہ نہ ہشیار نہ بے دار تھے ہم
یہ بھی سچی ہے مگر بات کہ ہم سو نہ سکے
ایک دو پل کے لیے ہم کو عطا ہو جائے
نیند اے قبلۂ حاجات کہ ہم سو نہ سکے
ساز دوراں پہ کچھ اس طرح سے انگشت حیات
چھیڑتی جاتی تھی نغمات کہ ہم سو نہ سکے
ایک سناٹا تھا آواز نہ تھی اور نہ جواب
دل میں اتنے تھے سوالات کہ ہم سو نہ سکے
جھلملاتے رہے تاریک شبستاں کے پرے
ایسے بیتے ہوئے لمحات کہ ہم سو نہ سکے
رات بھر دشت تصور میں بھٹکتے ہی رہے
جانے کیا ان سے ہوئی بات کہ ہم سو نہ سکے
عمر بھر یوں تو تمنائیؔ رہے تیشہ بکف
اتنی سنگین تھی ہر رات کہ ہم سو نہ سکے
غزل
دل میں وہ درد اٹھا رات کہ ہم سو نہ سکے
عزیز تمنائی