یوں ہی کٹے نہ رہ گزر مختصر کہیں
پڑتے ہیں پائے شوق کہیں اور نظر کہیں
موہوم و مختصر سہی پیش نظر تو ہے
دیکھا کسی نے خواب یہ بار دگر کہیں
مائل بہ جستجو ہیں ابھی اہل اشتیاق
دنیائیں اور بھی ہیں ورائے نظر کہیں
باقی ابھی قفس میں ہے اہل قفس کی یاد
بکھرے پڑے ہیں بال کہیں اور پر کہیں
اب ہم ہیں اور طلسم تمنا کی وسعتیں
ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکی راہ مفر کہیں
ہر فاصلہ ہے جلوہ گہ موج اتصال
یعنی جبین شوق کہیں سنگ در کہیں
صدیوں کا اضطراب تمنائیؔ سونپ دوں
مل جائے کوئی لمحۂ فرصت اگر کہیں
غزل
یوں ہی کٹے نہ رہ گزر مختصر کہیں
عزیز تمنائی