EN हिंदी
عزیز تمنائی شیاری | شیح شیری

عزیز تمنائی شیر

16 شیر

کچھ کام آ سکیں نہ یہاں بے گناہیاں
ہم پر لگا ہوا تھا وہ الزام عمر بھر

عزیز تمنائی




مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود سحر
شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو شام کے ساتھ

عزیز تمنائی




تھپکیاں دیتے رہے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
اس قدر جل اٹھے جذبات کہ ہم سو نہ سکے

عزیز تمنائی




ان کو ہے دعویٰ مسیحائی
جو نہیں جانتے شفا کیا ہے

عزیز تمنائی




وہیں بہار بکف قافلے لپک کے چلے
جہاں جہاں ترے نقش قدم ابھرتے رہے

عزیز تمنائی




وہ شے کہاں ہے پنہاں اے موج آب حیواں
جو وجۂ سر خوشی تھی برسوں کی تشنگی میں

عزیز تمنائی




یہ غم نہیں کہ مجھ کو جاگنا پڑا ہے عمر بھر
یہ رنج ہے کہ میرے سارے خواب کوئی لے گیا

عزیز تمنائی