EN हिंदी
اسی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں | شیح شیری
usi ne sath diya zindagi ki rahon mein

غزل

اسی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں

عزیز تمنائی

;

اسی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں
وہ اک چراغ جو جلتا رہا نگاہوں میں

شمیم گل سے سبک تر کرن سے نازک تر
کوئی لطیف سی شے آ گئی ہے باہوں میں

یہ کس کی حشر خرامی کی بات اٹھی ہے
ہمارا نام پکارا گیا گواہوں میں

خبر نہ تھی کہ وہی اپنی یوں خبر لیں گے
شمار کرتے تھے ہم جن کو خیر خواہوں میں

ابھی ہیں راکھ میں چنگاریاں دبی لیکن
مزا کہاں ہے وہ پہلا سا اب کی چاہوں میں

ہمیں نے زیست کے ہر روپ کو سنوارا ہے
لٹا کے روشنئ طبع جلوہ گاہوں میں

رگوں میں جیسے رواں ہے لہو تمنائیؔ
کسی کی موج کرم ہے مرے گناہوں میں