افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید
اسی کی جانب چلی ہے شام و سحر کی یہ رہ گزار شاید
قفس میں دور و دراز سے بھینی بھینی خوشبو سی آ رہی ہے
چمن چمن ہم کو ڈھونڈتی ہوگی موج فصل بہار شاید
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
نہ شب کے گیسو سنور سکے اور نہ دن کے رخ پر نکھار آیا
ازل سے مشاطگی کا ہر مدعی ہے ناپختہ کار شاید
جو ہر نظر کو بھگو گئی ہے جو ہر نفس کو ڈبو گئی ہے
وہی تغیر کی موج اک دن بنے گی وجہ قرار شاید
وہی ہے انداز بے نیازی وہی ہے رفتار بے شعوری
ابھی تک آنکھوں میں موجزن ہے گئے دنوں کا خمار شاید
نہ جانے حد نظر سے ٹکرا کے کیوں تمنائی لوٹ آئے
حدود ارض و سما کے آگے کھنچا ہوا ہے حصار شاید
غزل
افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید
عزیز تمنائی