آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
عزیز قیسی
اب تو فقط بدن کی مروت ہے درمیاں
تھا ربط جان و دل تو شروعات ہی میں تھا
عزیز قیسی
عجیب شہر ہے گھر بھی ہیں راستوں کی طرح
کسے نصیب ہے راتوں کو چھپ کے رونا بھی
عزیز قیسی
چل قیسیؔ میلے میں چل کیا رونا تنہائی کا
کوئی نہیں جب تیرا میرا سب میرے سب تیرے
عزیز قیسی
دلوں کا خوں کرو سالم رکھو گریباں کو
جنوں کی رسم زمانہ ہوا اٹھا دی ہے
عزیز قیسی
اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ
دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا
عزیز قیسی
جتنے تھے رنگ حسن بیاں کے بگڑ گئے
لفظوں کے باغ شہر کی صورت اجڑ گئے
عزیز قیسی
جو زخم دوستوں نے دیے ہیں وہ چھپ تو جائیں
پر دشمنوں کی سمت سے پتھر کوئی تو آئے
عزیز قیسی
کئی بار دور کساد میں گرے مہر و ماہ کے دام بھی
مگر ایک قیمت جنس دل جو کھری رہی تو کھری رہی
عزیز قیسی