الجھاؤ کا مزہ بھی تری بات ہی میں تھا
تیرا جواب ترے سوالات ہی میں تھا
سایہ کسی مکیں کا بھی جس پر نہ پڑ سکا
وہ گھر بھی شہر دل کے مضافات ہی میں تھا
الزام کیا ہے یہ بھی نہ جانا تمام عمر
ملزم تمام عمر حوالات ہی میں تھا
یاروں کو انحراف کا جس پر رہا غرور
وہ راستہ بھی دشت روایات ہی میں تھا
اب تو فقط بدن کی مروت ہے درمیاں
تھا ربط جان و دل تو شروعات ہی میں تھا
مجھ کو جو قتل کر کے مناتا رہا ہے جشن
وہ بد نہاد شخص مری ذات ہی میں تھا
غزل
الجھاؤ کا مزہ بھی تری بات ہی میں تھا
عزیز قیسی