EN हिंदी
انہیں سوال ہی لگتا ہے میرا رونا بھی | شیح شیری
unhen sawal hi lagta hai mera rona bhi

غزل

انہیں سوال ہی لگتا ہے میرا رونا بھی

عزیز قیسی

;

انہیں سوال ہی لگتا ہے میرا رونا بھی
عجب سزا ہے جہاں میں غریب ہونا بھی

یہ رات رات بھی ہے اوڑھنا بچھونا بھی
اس ایک رات میں ہے جاگنا بھی سونا بھی

وہ حبس دم ہے زمیں آسماں کی وسعت میں
کہ ایسا تنگ نہ ہوگا لحد کا کونا بھی

عجیب شہر ہے گھر بھی ہیں راستوں کی طرح
کسے نصیب ہے راتوں کو چھپ کے رونا بھی

کھلے میں سوئیں گے پھر موتیا کے پھولوں سے
سجاؤ زلف بسا لو ذرا بچھونا بھی

نجات روح بھی ارزاں نشور دل کی طرح
ہوا ہے سہل ضمیروں کے داغ دھونا بھی

عزیزؔ کیسی یہ سوداگروں کی بستی ہے
گراں ہے دل سے یہاں کاٹھ کا کھلونا بھی