آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا
کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم
چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا
اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں
جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا
خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی
آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا
گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج
درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا
عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے
سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا
جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں
رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا
اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ
دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا
غزل
آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا
عزیز قیسی