دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے
پتھر سے میرے خواب کا پیکر کوئی تو آئے
دریا بھی ہو تو کیسے ڈبو دیں زمین کو
پلکوں کے پار غم کا سمندر کوئی تو آئے
چوکھٹ سے حال پوچھا تو بازار سے سنا
اک دن غریب خانے کے اندر کوئی تو آئے
جو زخم دوستوں نے دیے ہیں وہ چھپ تو جائیں
پر دشمنوں کی سمت سے پتھر کوئی تو آئے
ہیں نوحہ گر ہزار ثنا خواں ہزار ہیں
میرے سوائے تیر کی زد پر کوئی تو آئے
لاکھوں جب آ کے جا چکے کیا مل گیا میاں
اب بھی یہ سوچتے ہو پیمبر کوئی تو آئے
شکوہ درست قیسیؔ کے پیہم سکوت کا
لیکن اس انجمن میں سخنور کوئی تو آئے
غزل
دل خستگاں میں درد کا آذر کوئی تو آئے
عزیز قیسی