مٹا کے انجمن آرزو صدا دی ہے
چلے بھی آؤ کہ ہر روشنی بجھا دی ہے
گر اتفاق سے پایا ہے قطرۂ شبنم
سمندروں کو مری پیاس نے دعا دی ہے
ہجوم راہ رواں روند کر گزرتا ہے
بساط دل کی کہاں ہم نے یہ بچھا دی ہے
دلوں کا خوں کرو سالم رکھو گریباں کو
جنوں کی رسم زمانہ ہوا اٹھا دی ہے
نہ مڑ کے دیکھے گی دنیا مرو نہ گھٹ گھٹ کے
یہ حادثوں پہ ہی بس چونکنے کی عادی ہے
کسی کی جان کا ضامن نہیں یہاں کوئی
امین شہر کی جانب سے یہ منادی ہے
کہو جو کہنا ہے کیا پاس درد قیسیؔ کا
کہ اس نے دل سے وہ بنیاد ہی مٹا دی ہے
غزل
مٹا کے انجمن آرزو صدا دی ہے
عزیز قیسی