جتنے تھے رنگ حسن بیاں کے بگڑ گئے
لفظوں کے باغ شہر کی صورت اجڑ گئے
اس آندھیوں کی فصل میں ہے کس بنا پہ ناز
تم کیا ہو آسمانوں کے خیمے اکھڑ گئے
یہ معجزہ حیات کا معمول بن گیا
اتنی دفعہ چراغ ہواؤں سے لڑ گئے
قطرے لہو کے جن کو سمجھتے ہو بے نمو
اکثر زمین شور میں بھی جڑ پکڑ گئے
گردن فرازیوں یوں ہے مقتل زمیں تمام
کیسے کہاں یہ بات پہ تم اپنی اڑ گئے
غزل
جتنے تھے رنگ حسن بیاں کے بگڑ گئے
عزیز قیسی