EN हिंदी
عاصمہ طاہر شیاری | شیح شیری

عاصمہ طاہر شیر

12 شیر

آئنے پر تو ہے بھروسا مجھے
اس سے کیوں منہ چھپائے بیٹھی ہوں

عاصمہ طاہر




بام و در پر اترنے والی دھوپ
سبز رنگ ملال رکھتی ہے

عاصمہ طاہر




چبھ رہی ہے اندھیری رات مجھے
ہر ستارہ بجھائے بیٹھی ہوں

عاصمہ طاہر




ڈوبنے کی نہ تیرنے کی خبر
عشق دریا میں بس اتر دیکھوں

عاصمہ طاہر




ہم نے جب حال دل ان سے اپنا کہا
وہ بھی قصہ کسی کا سنانے لگے

عاصمہ طاہر




خوشبو جیسی رات نے میرا
اپنے جیسا حال کیا تھا

عاصمہ طاہر




خواب کا انتظار ختم ہوا
آنکھ کو نیند سے جگاتے ہیں

عاصمہ طاہر




مرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان
جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں

عاصمہ طاہر




مجھ کو خوابوں کے باغ میں لا کر
گھنے جنگل میں کھو رہی ہے رات

عاصمہ طاہر