سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں
اداسیوں میں بھی خود کو سنوار لیتی ہوں
مرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان
جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں
کبھی کبھی مجھے خود پر یقیں نہیں ہوتا
کبھی کبھی میں خدا کو پکار لیتی ہوں
جنم جنم کی تھکاوٹ ہے میرے سینے میں
جسے میں اپنے سخن میں اتار لیتی ہوں
میں اب بھی یاد تو کرتی ہوں عاصمہ اس کو
اسی کا غم ہے جسے میں سہار لیتی ہوں
غزل
سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں
عاصمہ طاہر