خود میں دھونی رمائے بیٹھی ہوں
آج خود کو بھلائے بیٹھی ہوں
جانے والوں کا انتظار نہیں
اپنے رستے میں آئے بیٹھی ہوں
اس کی آنکھوں میں ہے طلسم کوئی
اپنا چہرہ لٹائے بیٹھی ہوں
چاند کو طیش آ رہا ہے کہ میں
کیوں نظر کو ملائے بیٹھی ہوں
پھول کھلتے ہیں مجھ میں شعروں کے
ایک مصرعہ سمائے بیٹھی ہوں
راہ گزر احترام کر میرا
میں کسی کے بلائے بیٹھی ہوں
ہر خوشی زرد ہو گئی جیسے
اک اذیت بھلائے بیٹھی ہوں
آئنے پر تو ہے بھروسا مجھے
اس سے کیوں منہ چھپائے بیٹھی ہوں
چبھ رہی ہے اندھیری رات مجھے
ہر ستارہ بجھائے بیٹھی ہوں
غزل
خود میں دھونی رمائے بیٹھی ہوں
عاصمہ طاہر