اپنی آنکھیں جو بند کر دیکھوں
سبز خوابوں کا میں سفر دیکھوں
ڈوبنے کی نہ تیرنے کی خبر
عشق دریا میں بس اتر دیکھوں
بعد اس کے نہیں خبر کیا ہے
آئنے تک تو چشم تر دیکھوں
دل میں بجتا ہوا دھڑکتا ہوا
اپنی تنہائی کا گجر دیکھوں
بین کرتی ہوئی بہاروں میں
خود میں اک شور خیر و شر دیکھوں
خواب کی لہلہاتی وادی میں
خوشبوؤں سے بنا نگر دیکھوں
آسماں لے رہا ہے انگڑائی
تتلیوں کے نگر میں ڈر دیکھوں
موجۂ گل کے ہاتھ میں لپٹی
عاصمہؔ دشت کی خبر دیکھوں
غزل
اپنی آنکھیں جو بند کر دیکھوں
عاصمہ طاہر