EN हिंदी
صدیوں کو بے حال کیا تھا | شیح شیری
sadiyon ko behaal kiya tha

غزل

صدیوں کو بے حال کیا تھا

عاصمہ طاہر

;

صدیوں کو بے حال کیا تھا
اک لمحے نے سوال کیا تھا

مٹی میں تصویریں بھر کے
کوزہ گر نے کمال کیا تھا

باہر بجتی شہنائی نے
اندر کتنا نڈھال کیا تھا

جرم فقط اتنا تھا میں نے
اک رستے کو بحال کیا تھا

خوشبو جیسی رات نے میرا
اپنے جیسا حال کیا تھا

ایک سنہرے ہجر نے مجھ سے
کتنا سبز وصال کیا تھا