صدیوں کو بے حال کیا تھا
اک لمحے نے سوال کیا تھا
مٹی میں تصویریں بھر کے
کوزہ گر نے کمال کیا تھا
باہر بجتی شہنائی نے
اندر کتنا نڈھال کیا تھا
جرم فقط اتنا تھا میں نے
اک رستے کو بحال کیا تھا
خوشبو جیسی رات نے میرا
اپنے جیسا حال کیا تھا
ایک سنہرے ہجر نے مجھ سے
کتنا سبز وصال کیا تھا
غزل
صدیوں کو بے حال کیا تھا
عاصمہ طاہر