اپنی حالت پہ آنسو بہانے لگے
سرد راتوں میں خود کو جگانے لگے
سرخ تاروں کے ہم راہ کر کے سفر
خواب زاروں سے کیوں آگے جانے لگے
دور بجنے لگی ہے کہیں بانسری
ہم بھی زندان میں گیت گانے لگے
جو بصارت بصیرت سے محروم ہیں
شہر کے آئنوں کو سجانے لگے
ہم نے جب حال دل ان سے اپنا کہا
وہ بھی قصہ کسی کا سنانے لگے
نیستی کا ستم کوئی کم تھا جو تم
اپنی ہستی کا دکھ بھی منانے لگے
جب بجھی میری آنکھوں کی لو عاصمہؔ
تیرہ منظر بھی جلوہ دکھانے لگے
غزل
اپنی حالت پہ آنسو بہانے لگے
عاصمہ طاہر