زخم کھا کے بھی مسکراتے ہیں
ہم ہیں پتھر بکھر نہ پاتے ہیں
کوئی پہچان ہی نہ لے ہم کو
رنگ میں شام ہم ملاتے ہیں
خواب کا انتظار ختم ہوا
آنکھ کو نیند سے جگاتے ہیں
شام کے وقت ہجرتی پتے
سبز پیڑوں کا غم مناتے ہیں
عاصمہؔ روشنی بھرے الفاظ
اپنے اندر ہی جھلملاتے ہیں
غزل
زخم کھا کے بھی مسکراتے ہیں
عاصمہ طاہر