اے جنوں اس کی کہانی بھی سناؤں گا تجھے
یہ جو پیوند مرے چاک میں دیکھا گیا ہے
اشفاق ناصر
ہم آئنے میں ترا عکس دیکھنے کے لیے
کئی چراغ ندی میں بہانے لگتے ہیں
اشفاق ناصر
ہم فقط تیری گفتگو میں نہیں
ہر سخن ہر زبان میں ہم ہیں
اشفاق ناصر
ہجر انساں کے خد و خال بدل دیتا ہے
کبھی فرصت میں مجھے دیکھنے آنا مرے دوست
اشفاق ناصر
جا تجھے تیرے حوالے کر دیا
کھینچ لے یہ ہاتھ پھیلایا ہوا
اشفاق ناصر
شام ڈھلنے سے فقط شام نہیں ڈھلتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے جلدی پلٹ آنا مرے دوست
اشفاق ناصر
شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا
اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے
اشفاق ناصر
وہ جس میں لوٹ کے آتی تھی ایک شہزادی
ابھی تلک نہیں بھولی وہ داستاں مجھ کو
اشفاق ناصر
وہ پھول ہو ستارہ ہو شبنم ہو جھیل ہو
تیری کتاب حسن کے سب اقتباس تھے
اشفاق ناصر