دل کسی خواہش کا اکسایا ہوا
پھر مچل اٹھا ہے بہلایا ہوا
جا تجھے تیرے حوالے کر دیا
کھینچ لے یہ ہاتھ پھیلایا ہوا
جس طرح ہے خشک پتوں کو ہوا
میرے حصے میں ہے تو آیا ہوا
یہ بگولے ہیں کہ استقبال قیس
پھر رہا ہے دشت گھبرایا ہوا
بزم میں بس اک رخ روشن کے فیض
جو جہاں موجود تھا سایا ہوا
کیا کروں اے کار دنیا کیا کروں
وہ مجھے ہے پھر سے یاد آیا ہوا
غزل
دل کسی خواہش کا اکسایا ہوا
اشفاق ناصر