یہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں یہاں وہاں مجھ کو
تلاش کرتے نہیں اپنے درمیاں مجھ کو
میں اگلے پچھلے زمانوں سے ہو کے آیا ہوں
کہیں نظر نہیں آئے ہیں رفتگاں مجھ کو
وہ جس میں لوٹ کے آتی تھی ایک شہزادی
ابھی تلک نہیں بھولی وہ داستاں مجھ کو
یہ کس نے کر دیا صیقل زمیں کا آئینہ
تہ زمیں نظر آتا ہے آسماں مجھ کو
عجیب شخص ہے جس نے کہیں نہیں جانا
یہ کہہ کے دیکھتا جاتا ہے کارواں مجھ کو
مجھے خبر ہے کہانی کا انت آ گیا ہے
مجھے خبر ہے کہ ہونا ہے رائیگاں مجھ کو
غزل
یہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں یہاں وہاں مجھ کو
اشفاق ناصر