رنج جو دیدۂ نمناک میں دیکھا گیا ہے
یہ فقط سینۂ صد چاک میں دیکھا گیا ہے
اس سے آگے ہے میاں منتظروں کی بستی
اک دیا جلتا ہوا طاق میں دیکھا گیا ہے
اے جنوں اس کی کہانی بھی سناؤں گا تجھے
یہ جو پیوند مرے چاک میں دیکھا گیا ہے
یعنی اک آنکھ ابھی ڈھونڈھتی پھرتی ہے مجھے
یعنی اک تیر مری تاک میں دیکھا گیا ہے
ایک خواہش کا مرے دل میں اترنا اشفاقؔ
اک شرارہ خس و خاشاک میں دیکھا گیا ہے
ہجر اور دشت میں جو شخص بھی ٹھہرا اشفاقؔ
تجربہ اڑتی ہوئی خاک میں دیکھا گیا ہے
غزل
رنج جو دیدۂ نمناک میں دیکھا گیا ہے
اشفاق ناصر